خاموش قاتل
ہم اکثر سنتے ہیں ایڈز خاموش قاتل ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کے قدموں کی آہٹ ہم آسانی سے سن سکتے ہیں یہ سچ ہے کہ یہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی طرح خاموشی سے وار کرتا ہے لیکن اگر ہم ہر 6 ماہ میں ایک بار ڈاکٹر کو چیک اپ ضرور کروائیں. اس کے علاوہ بلڈ ٹیسٹ کروائیں تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ کوئی بیماری حملہ آور تو نہیں ہوئی، تاہم بر وقت اس کا علاج کیا جا سکے. لیکن بڑے افسوس کی بات ہے جب ہمیں کوئی بیماری پوری طرح جگڑ لیتی ہے تو ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں. تعلیم بڑی چیز ہے اگر ہم تعلیم یافتہ ہیں تو ہمیں ضرور شعور ہو گا کہ وقت پر کس طرح ڈاکٹر کو چیک کروانا ہے تھوڑا علم فساد کا موجب ہے کچھ لوگ جو کہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے وہ عام بیماریوں کو کچھ نہیں سمجھتے اور کچھ لوگ تو اپنے ہی ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں اور یہ ٹوٹکے اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں. آپ نے بھی سنا ہو گا " نیم حکیم خطرہ جان" بہرحال قاتل تو قاتل ہوتا ہے خاموش ہو یا واویلا کرنے والا لیکن جو بڑے ہوتے ہیں جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے ان کے گناہ چھپ جاتے ہیں. ایک جج صاحب کے پاس ایک کیس آیا ایک آدمی کو پھانسی کی سزا ہوئی عدالت لگی کیس پر بحث ہوئی خیر قصہ مختصر اس شخص نے جج صاحب کو کہا میں کچه عرض کرنا چاہتا ہوں اس کو اجازت مل گئی اس نے کہا جج صاحب میں نے ایک قتل کیا ہے مجھے پھانسی کی سزا ہوئی ہے ابهی میں قید کاٹ رہا ہوں اس کے بعد مجھے پھانسی ہو جانی ہے. مگر جن لوگوں نے 14 قتل کیے ہیں وہ آزاد گھوم پھر رہے ہیں یا تو ان کو گرفتار کر لو یا مجھے رہا کر دو جج صاحب نے کہا " اچھا کرتے ہیں کرتے ہیں" جج نے اگلی پیشی ڈال دی. اس قیدی کی بات تو ٹھیک ہے. ماڈل ٹاؤن کے واقعہ میں قتل ہونے والے 14 افراد نواز شریف اور اس کی قابینہ پر پڑتے ہیں خیر ایڈز بھی خاموش قاتل ہے مطلب کہ یہ بیماری اندر ہی اندر انسان کو کھاتی رہتی ہے.
اب سوال یہ ہے کہ یہ بیماری کیسے لگتی ہے اس کی علامات کیا ہے.
نا جائز جنسی تعلقات، آنسوؤں کے ذریعے، استعمال شدہ ریزر، استعمال شدہ سرنج کی وجہ سے یہ بیماری پھیلتی ہے اور اسی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے. ایڈز کی علامات
تیز بخار، چہرے پر پیلاہٹ، سردی کا لگنا، نید کے دوران پسینہ آنا،کھانسی، بهوک کا کم لگنا، سانس لینے میں دشواری، قوت مدافعت کا کم ہونا، لمف نوڈر کا بڑه جانا ہے. اس کے علاوہ قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے کوئی بھی بیماری حملہ آور ہو سکتی ہے اس کا وائرس خون میں موجود ہوتا ہے اس کی ڈائیگنوس عام ٹیسٹ الائیزا، پی سی آر سے کی جا سکتی ہے پی سی آر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سے پتہ چلتا ہے اس کے جراثیم ایکٹو ہیں کہ نہیں دوسرے سے پتہ چلتا ہے کہ کتنے فیصد ہے. آج کل ہم اسلامی طریقہ علاج سے بہت دور چلے گئے ہیں کلونجی اور شہد میں ہر بیماری کا علاج ہے سوائے موت کے. مگر ہمارا ایمان پختہ نہیں ہے ہم انگریزی طریقہ علاج پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یہ بات اس طرح سچ ہے جیسے "دو اور دو چار" کہ جو بھی اایجادات انگریز سائنس دانوں نے کی ہیں ان میں کوئی نہ کوئی خامی موجود ہے بلکہ یوں کہنا غلط نہیں کہ نا ممکن ہیں. اور جو ایجادات مسلمان سائنسدانوں نے کی ہیں وہ ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہیں کلونجی اور شہد کی بات ہو رہی تھی مثال کے طور پر ایک بندہ جو کسی بیماری کا اتنا مہنگا علاج کروا رہا ہے اسے آپ کہو کلونجی اور شہد میں ہر بیماری کا علاج ہے وہ بندہ آپ کو کہے گا کیا میں پاگل ہوں جو اتنے پیسے لگا رہا ہوں. ایڈز کی روک تھام کیلئے بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان سب کو حکومت کا تعاون حاصل ہونا چاہیے حکومتی سطح پر سکولوں، کالجوں خصوصاً دیہاتوں میں آگاہی پروگرام منعقد ہوں. جن میں لوگوں کو اس سے بچاؤ کے متعلق بتایا جائے.
یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے یہ دن پہلی مرتبہ 1987 میں منایا گیا. عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا اس کا مقصد ہے. ایڈز کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا پر مختلف آگاہی پروگرام کیے جاتے ہیں زیادہ تر محققین کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا لیکن اب یہ پوری دنیا پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا ہے. ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں اس وقت کم و بیش تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں. جیسے ایچ آئی وی کہتے ہیں جس جسم میں یہ وائرس ہو اس کے جسم سے قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی بیماریوں کے خلاف لڑنے کی جو قوت ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے. یہ جراثیم ہوتے ہیں جو بیماری والے جراثیم سے لڑتے ہیں کبھی کبھی بیماری والے جراثیم زیادہ طاقتور ہوتے ہیں. ایچ آئی وی دیگر وبائی امراض کی طرح کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے، اس سے بات چیت کرنے، اس کو چھونے یا اس کی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوتا بلکہ متاثرہ شخص کے خون سے لعاب یعنی آب دهن یا تهوک، انجیکشن کی سرنج، ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ، ناک کان چھڑوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں ان کی مناسب صفائی نہ ہونا، متاثرہ شخص کے شیونگ بلیڈ سے شیو کرنا، دانتوں کی صفائی والے اوزار جو ڈاکٹر استعمال کرتے ہیں ان کا مناسب صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا وغیرہ،اس کا سبب بنتی ہیں.
اگر کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے باعث اس کا علاج بہت زیادہ مشکل ہو جاتا ہے. اس کی بنیادی وجہ انفیکشن ہے اب تک پاکستان میں تقریباً 8 ہزار مریض اس مرض میں مبتلا رجسٹر ہوئے ہیں. اور اس میں سے کئی گنا زیادہ مرض میں مبتلا ہونے کا امکان ہے پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھروں میں اس مرض کو چھپاتے ہیں. شاید ان کو پتہ نہیں کہ یہ مرض جان لیوا ہے اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں. ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کے ایک لاکھ سے زائد مریض ہو سکتے ہیں. اور صرف 15 مراکز ہیں جہاں اس کا ٹیسٹ مفت میں ہوتا ہے اور پاکستان میں جب کوئی ٹیسٹ مفت ہو تو اس کے رزلٹ کا سو فیصد درست ہونے کی کوئی تسلی نہیں خصوصاً گورنمنٹ اداروں میں بہت لا پرواہی بر تی جا رہی ہے.
روانڈا ایک ایسا ملک ہے جہاں 90 فی صد آبادی کیتھولک ہے وہاں کی 3 فیصد آبادی ایڈز کا شکار ہے. کچھ ممالک میں اس مرض کا علاج یا دفاع کے لیے اسلامی طریقہ کے مطابق مردوں کے ختنے کر کے کیا جا رہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ختنے والے مردوں میں اس بیماری کے انفیکشن کا خطرہ 60 فیصد کم ہوتا ہے. اس مرض پر مزید تحقیق جاری ہے.
" خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی"
"جس کو نہ ہو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا"
فرمان الہی ہے کہ " دنیا میں کوئی مرض ایسی نہیں پیدا کی گئی جس کا علاج نہ ہو"
اس مہلک اور جان لیوا بیماری کی روک تھام کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ اس مرض کا جڑ سے خاتمہ ہو سکے.
0 Comment to "خاموش قاتل"
Post a Comment