کیا یومِ اقبال پر چھٹی ہونی چاہیے؟
میں
صبح سویرے اٹھا اٹھتے ہی نظر کیلنڈر پر پڑی تو 9 نومبر یومِ اقبال تها علامہ
اقبال صاحب کی شخصیت
آنکھوں کے سامنے تهی میرے اندر جذبہ حب الوطنی اور بهی
گہرا ہو گیا. بہرحال وضو کر کے فجر کی نماز باجماعت ادا کی اس کے بعد حضرت
علامہ اقبال کی روح کے لیے ایصال و ثواب کیا.پهر ورزش کر کے گهر کے معمول کے
کام پورے کیے.نہانے کے بعد ناشتہ کیا اور کالج کے لیے روانہ ہو گیا کچه عجیب
سا لگا کی یومِ اقبال کی چھٹی ختم ہو گئی. بہرحال گهر میں کون سا کوئی
پروگرام تھا جو ہم بھی چھٹی کرتے حکومت نے اگر چھٹی ختم کی تو کچھ اچھا ہی
سوچا ہو گا. خیر میں کالج پہنچا.حاضری ہوئ آپ کو بتاتا چلوں کہ ہماری حاضری
بائیو میڑک طریقے سے ہوتی ہے یہ ایک بہت ہی اچھا سسٹم ہے اس کو ہر محکمے پر
لاگو ہونا چاہیے نا صرف گورنمنٹ بلکہ پرائیویٹ اداروں میں بھی لازم ہونا چاہیے
کیونکہ کچھ لوگ مفت تنخواہیں کها رہے ہیں یہ زیادہ تر گورنمنٹ محکموں میں ہو
رہا ہے اس میں قابل ذکر پولیس، واپڈا اور اس قسم کے بے شمار محکمے ہیں. بہت
سارے افسر سارہ مہینہ باقاعدگی سےحاضر نہیں ہوتے لیکن اپنی تنخواہ ہر مہینے
وصول کرتے ہیں کچھ تو اوپر کی کمائی بھی کرتے ہیں خاص طور پر پولیس کانسٹیبل
کا جواب نہیں اس معاملے میں وہ کس طرح بهولی بهالی عوام سے پیسے بٹورتے ہیں
خیر میں اپنے ٹاپک سے دور جا رہا ہوں بات ہو رہی تھی یومِ اقبال پرہم نے خود
ہی ایک شعر تخلیق کر ڈالا
"اقبال ہم شرمندہ
ہیں کہ"
"تیری چھٹی کے
قاتل رندہ ہیں"
کالج میں ہمارے سر نے
تمام سٹوڈنٹ سے پوچھاکہ 9 نومبر کی چھٹی ہونی چاہیے یا نہیں صرف چند ایک یا دو نے
کہا"نہیں" ہونی چاہیے زیادہ نے کہا "ہونی" چاہیے. جب
مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے کہا ہونی بھی چاہیے اور نہیں بھی اس پر کلاس کے کچھ لڑکے
ہنس پڑے. ہمارے سر نے پوچھا یہ کیا بات ہوئی میں نے کہا میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں
پھر میں نے کہا کہ چھٹی ہونی چاہیے اور حکومتی لیول سے پهر ہمارے گاؤں گلی محلوں
میں سیمینار منعقد ہوں ہمیں بتایا جائے کہ علامہ محمد اقبال کہا پیدا ہوئے اس کے
والدین کا کیا نام تھا ان کا بچپن کس طرح گزرا ان کی تعلیم ان کے کارنامے کیا تهے
ہمیں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ پتہ ہے لیکن ہماری نئی نسل خاص طور پر پرائمری، مڈل ان
کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے اگر ایسی کوئی تقریب نہیں ہوتی تو چھٹی نہیں ہونی چاہیے اور
سکول، کالج اور یونیورسٹی میں جانے پر کم از کم جو ٹیچر آے گا علامہ صاحب کے بارے
میں کچھ نہ کچھ تو بتائے گا. میری بات سے میرے ٹیچر اور میرے کلاس والے مطمئن ہو
گئے. اس کے بعد ہمارے ٹیچر نے علامہ صاحب کے بارے میں بتانا شروع کیا کہ علامہ
صاحب اکثر سوچتے کیوں رہتے تھے اور جو وہ شعر لکھتے تھے وہ خود نہیں لکھتے تھے
بلکہ نزول ہوتا تھا. علامہ صاحب خود کو بھی نہیں پتہ ہوتا تھا کہ وہ کیا لکھ رہے
ہیں جب وہ لکھ لیتے تو پھر ان کو پتہ چلتا کہ کیا لکھا ہے. علامہ صاحب نے سب سے
طویل غزل خفرراہ لکهی یہ غزل آپ نے تقریباً تین گھنٹوں میں سنائی لوگوں کی تعداد
بہت زیادہ تھی اور جب علامہ صاحب نے تقریب ختم کی تو تقریباً آدھا گھنٹہخخاموشی
رہی وہ خاموشی ہماری خاموشی جیسی نہیں تهی بلکہ سارا ہجوم رو رہا تھا اور علامہ
صاحب بھی رو پڑے تھے . درمیان میں ان کی حالت ایسی ہو جاتی تھی کہ ان کی آواز غائب
ہو جاتی تھی اس کے علاوہ کچھ عرصہ علامہ صاحب کی والدہ محترمہ نے ان کو اپنا دودھ
پلانا کیوں چھوڑ دیا. ان دنوں آپ کے والد بنک میں جاب کرنے لگ گئے تھے اور آپ کی
والدہ محترمہ نے کہا کہ میں سود کے پیسوں سے بننے والی غذا اپنے بچے کو کیوں پلاو
اس لیے انہوں نے ایک بکری رکھ لی جس کا دودھ انہوں نے علامہ صاحب کو پلانا شروع کر
دیا. اس کے علاوہ پاکستان بنانے میں علامہ اقبال نے بہت عظیم کردار ادا کیا انہوں
نے قائداعظم کو بتایا کہ کانگریس ہندوؤں کی جماعت ہے یہ ہندوؤں کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہے اور علامہ صاحب نے ہی قائداعظم کو کانگریس سے نکالا.
ہمیں تو پاکستان ایسے بنا بنایا مل گیا. ہمارے بزرگ جو کہ تقسیم پاکستان کے وقت
موجود تھے ان کو پتہ ہے کہ کتنی قربانیوں کے بعد یہ وطن ملا ہے. اب ہم آزاد ہیں
ہمیں کوئی روک ٹوک نہیں لیکن جب لوگ ہجرت کر رہے تھے کسطرح ہندو اور سکھ انسےمال و
زر بھی چهین لیتے اور ان کو قتل بھی کر دیتے. بزرگ بتاتے ہیں کہ ایک دریا تھا اس
کی پل پر ہندو اور سکھ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے تھےاور اس دریا میں پانی نہیں
بلکہ خون بہ رہا تها. مجھے بھی تاریخی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے میں نے ایک کتاب میں
پڑھا"تقسیم پاکستان کے وقت ہندوؤں اور سکھوں نے اتنے مسلمانوں کو شہید کیا کہ
خون سڑکوں پر اس طرح بہ رہا تھا کہ گھوڑوں کے پاؤں ڈوب جاتے تھے اس کے علاوہ ہمارے
ٹیچر ایک اور بات کرتے کرتے چپ کر گے اور ساتھ ہی ان کے رونگهٹے کھڑے ہو گئے ہماری
کلاس کے ایک سٹوڈنٹ نے ان کو پانی پلانا . اور میری آنکھوں سے آنسو بھی جاری تهے.وہ
واقع میں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں. بہرحال اب پاکستان کا نام ہم نے روشن کرنا ہے.
"لاے ہیں کشتی ہم
طوفان سے نکال کر"
"اس ملک کو رکهنا
میرے بچوں سنبھال کر"
ہمارے ٹیچر نے ہماری
نئی نسل کو خهنجهوڑا کہ آج ہم ممی ڈیڈی بن گئے ہیں. تعلیم مکمل کی ڈاکٹر بن گئے
اور باہر چلے گئے باہر جا کر غیر مسلم کا علاج کیا اپنے والدین تک کا حال
نہیں پوچھا اور اکثر نوجوان کہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان دیا کیا ہے. او میرے بھائی
سب کچھ تو دیا ہے پاکستان نے سب کچھ دیا ہے نام دیا مقام دیا اور یہ جو لوگ باہر
جاتے ہیں کبھی ان سے پوچھ کر دیکهو پردیس کیا ہوتا ہے.
وہ کہتے ہیں کبھی بھی
باہر نہ جانا کیونکہ وہاں ہمارے ملک جیسی آزادی نہیں ملے گی. میرا ایک دوست 2 سال
سعودی عرب رہ کر آیا ہے وہ کہتا ہے "پاکستان ٹھیک ہے روکھی کها لو پر پاکستان
ٹھیک ہے" آخر میں
یہی کہوں گا کہ اپنے پاکستان سے پیار کرو. پاکستان
زندہ باد
0 Comment to "کیا یومِ اقبال پر چھٹی ہونی چاہیے"
Post a Comment